Sad poetry best urdu poetry (GAZAL)

Sad poetry

غزل 

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا 
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا 

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے 
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا 

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ 
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا 

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری 
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا 

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ 
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

غزل

ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مُسکان وغیرہ
قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ 

کمرے میں ہے بکھرا ہوا سامان وغیرہ،
خط، خواب، کتابیں، گل و گلدان وغیرہ!

ان میں سے کوئی ہجر میں امداد کو آئے،
جن، دیو، پری، خضر یا لقمان وغیرہ!

تو آئے تو گٹھڑی میں تجھے باندھ کے دے دوں،
دل، جان، نظر، سوچ یہ ایمان وغیرہ!

بس عشق کے مرشد سے ذرا خوف زدہ ہوں،
جھیلے ہیں بہت ویسے تو نقصان وغیرہ....

ہیں تم پہ نچھاور یہ دل و جان وغیرہ
یہ روح، نفس، مذہب و ایمان وغیرہ

جب عشق مقابل ہوا سب ہار گئے تھے
سقراط، یہ بقراط، یہ لقمان وغیرہ
انتخاب

غزل


جانے وہ کیسے لوگ تھے , جن کے پیار کو پیار مِلا
ھم نے تو جب کلیاں‌مانگیں ، کانٹوں‌کا ھار مِلا

خوشیوں‌کی منزل ڈُھونڈی تو ، غم کی گرد مِِلی
چاھت کے نغمے چاھے تو ، آھیں سرد ملیں
دل کے بوجھ کو دُونا کر گیا ، جو غمخوار مِلا

بچھڑ گیا ھر ساتھی دے کر ، پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ھے جو تھامے ، دیوانوں کا ھاتھ
ہم کو اپنا سایہ تک ، اکثر بیزار مِلا

اِس کو ھی جینا کہتے ھیں تو ، یوںہی جی لیں گے
اُف نہ کریں‌گے ، لب سی لیں‌گے ، آنسو پی لیں‌گے
غم سے اب گھبرانا کیسا ، غم سو بار مِلا

"ساحر لدھیانوی"

غزل

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

*کُچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش*
*پھریوں ہُوا کہ خُود مِرا چہرا بدل گیا*

جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا

*قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی*
*اُس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا*

کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا

*اِک سر خوشی کی موج نے کیسا کیا کمال*
*وہ بے نیاز، سارے کا سارا بدل گیا*

اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا

*حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے*
*باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا*

کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا، مکان کو نقشہ بدل گیا

*شاید وفا_کے_کھیل_سے اُکتا گیا تھا وہ*
*منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا*

قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیرکھو گئی، کبھی سَپنا بدل گیا

*منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا*
*جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا*

اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئی
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا

*آنکھوں میں جتنے اشک تھے جگنو سے بن گئے*
*وہ مُسکرایا اور مری دُنیا بدل گیا*

اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھو نڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
امجداسلام امجد

غزل

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے 
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے 

تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون 
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے 

ہوش میں آ چکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم 
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے 

رونق بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں 
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے 

شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں 
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے 

ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھر سکے 
سن کے یقین کر سکے جا کے انہیں سنا سکے 

عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست 
اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آ سکے 

اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل 
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری


 

Post a Comment

0 Comments