Best urdu poetry_ sad poetry in urdu _gamgeen poetry

 

Best urdu poetry_ sad poetry in urdu _gamgeen poetry

Best urdu poetry_ sad poetry in urdu _gamgeen poetry

 باہر نکال رُوح کو، زندانِ خاک  سے

پُرزے اُڑا وجود کے، تُربت پہ رقص کر


 شہر کے کنارے تک سب کی جان کو خطرہ

اس سے آگے سب اچھا، اس سے آگے جنگل ہے

 

ذرا سا وقت لگتا ہے کہیں سے اٹھ کے جانے میں 

مگر پھر لوٹ کر آنے میں کتنی دیر لگتی ہے 


فقط آنکھوں کی جنبش سے بیاں ہوتا ہے افسانہ 

کسی کو حال بتلانے میں کتنی دیر لگتی ہے

 اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے

لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے


فیض احمد فیضؔ

 فُرقتوں کی آندھیوں میں ، وصل ہوگا حادثہ

مل گیا وہ شخص تو ، نایاب ہو جائیں گے ہم

ہم  نے  فریبِ  یار  میں  سو  بار  اپنا  آپ!!!!

برباد کر کے پھر سے سنوارا ' کہ اب نہیں....

ایک مدت سے اجڑتے ہی چلے آتے ہیں 

ایک لمحے میں کہاں ہم نے سنور جانا ہے 

جس طرح رات گئی دن بھی گیا ہاتھوں سے 

اسی طرح ہم نے بھی کسی شام گزر جانا ہے

 اغیار کی محفل میں تھوڑا تو بھرم رکھ لے

زندہ ہوں ابھی تک میں سن لے مرے ہرجائی


جوہی بیگم شامؔا

 ‏یہ دکھ ہے مجھ کو وہی چھوڑ کر گیا، جو شخص...

‏گھٹن سمجھتا  تھا،  وحشت  کے  معنی جانتا تھا...

 جو لوگ جانتے ہوں بچھڑ جانے کا دکھ 

وہ ساتھ بیٹھے پرندوں کو بھی اڑایا نہیں کرتے

 تم جس کو دستیاب ہو، لازم ہے اس پہ یہ 

 ہر روز۔۔۔۔۔۔ اپنے بخت کا صدقہ دیا کرے!!!

‏مُدت سے اک چاک پر هے رقص میں حیات...


وہ کوزہ گر کچھ اس طرح  تسخیر کر گیا...

یہ الگ بات کہ میں چھوڑ چکا کوزہ گری 

ورنہ تجھ جیسے تو میں مٹی کے بنا سکتا ہوں

 ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں 


اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ

 یہ جو ہم ہیں نا احساس میں جلتے ہوۓ لوگ 

گر زمین زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے

‏جب بھی ہِلے کواڑ  تو  لگتا  ہے تُم ہی ہو

یہ وسوسے تو یار مُجھے یوں ہی کھا گئے

 ‏عین ممکن ہے وہ شخص ذرا سا تڑپے...


‏میں ہوں بیمار ، یہ افواہ اڑا دے کوئی...

 ‏یہ جو اک چپ سی لگی ہے تمہیں تازہ ابرک

تھک گئے ہو یا سوالوں سے نکل آئے ہو


 وہ حسن مکمل بھی فنا ہونا ہے اک دن ؟

وہ زلف؟ جبیں؟ ہونٹ؟ وہ رخسار؟ نہیں یار! 


رکھا ہے بھرم اس کی اداؤں کا وگرنہ ،

میں اور محبت میں گرفتار ؟ نہیں یار !


 اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں 

اب کس  امید  پہ دروازے  سے جھانکے کوئی 


کوئی  آہٹ   کوئی   آواز   کوئی   چاپ   نہیں 

دل  کی  گلیاں   بڑی   سنسان  ہیں  آئے  کوئی


 حادثہ یہ تھا میرا رختِ سفر لُوٹا گیا

معجزہ یہ ہے میرا شوقِ سفر زندہ ہے


 اسی کی قبر پہ الٹا پر ہوا ہے چراغ 

جو مر گیا تھا دیے  سے دیا جلاتے ہوۓ 

میں اسے عالم بیچارگی میں کیا کہتا 

وہ رو پڑا مجھے مجبوریاں بتاتے ہوۓ


 یُوں بُنی ہیں رَگیں جِسم کی

ایک نس، ٹس سے مس اور بس

سب تماشائے کُن ختم شُد

کہہ دیا اُس نے بس اور بس


 اسی کی قبر پہ الٹا پڑا ہوا ہے چراغ 

جو مر گیا تھا دیے  سے دیا جلاتے ہوۓ 


میں اسے عالم بیچارگی میں کیا کہتا 

وہ رو پڑا مجھے مجبوریاں بتاتے ہوۓ


 مقدار ہے دوا کی ضروری بقدرِ زخم

صدمہ شدید تر تھا، ستم اِنتہا کا تھا


اک پورا مئے کا حوض مجھے پینا پڑ گیا

کیوں کے ڈسا ہوا میں کسی پارسا کا تھا


 بعض اوقات، خیالوں میں بھٹک جاتا ہوں

 اتنا چلتا ہوں کہ بیٹھے ہوئے تھک جاتا ہوں


تین کونوں سے نکلتے ہیں گھٹن، خوف، سکوت

 میں سرکتا ہوا چوتھے میں دبک جاتا ہوں


ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے لمحہ بھر کو

 دل ٹھہر جاتا ہے، میں آپ دھڑک جاتا ہوں


گھر سے میں کھینچ کے لاتا ہوں سڑک تک خؤد کو

 پھر جدھر لے کے جائے سڑک چلا جاتا ہوں


غم کی حدت نے پکائی ہے کچھ ایسے مری خاک

 جب بھی دیوار سے ٹکراؤں کھنک جاتا ہوں

Post a Comment

0 Comments